Tuesday, 21 November 2017

Kya Mien Muslim Hoon ! boohat Khoobsrat Tehreer کیا میں مسلمان ہوں ایک بہت ہے خوبصورت تحریر

جب میں چھوٹا تھا تو سب کا احترام کرتا تھا، محلے والے مجھے نیک خالد کہتے تھے، پانچ وقت کی نماز مسجد میں پڑھتا تھا، ہر جمعرات کو ضرور داتا دربار پر دعا کے لئے جاتا تھا، ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو گیارھویں شریف کی دیگ پکا کر عزیز و اقارب اور غرباء و فقراء میں تقسیم کیا کرتا تھا، اگر تصویر میں بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مزار نظر آجائے تو اس کی طرف پشت نہیں کرتا تھا، گاڑی میں بزرگوں کے لئے جگہ چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا، بزرگوں کے احترام سے میرا مقصد اپنے فرقے کی تبلیغ نہیں ہوتا تھا بلکہ میں خلوص دل سے بزرگوں کا احترام کرتا تھا۔ کسی کا کوئی فوت ہو جائے تو اس کی قبر پر قرآن شریف کی تلاوت کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔
لیکن جب میں بڑا ہوگیا تو مجھے پتہ چلا کہ ان چیزوں سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا، مسلمان بننے کے لئے تو پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنا پڑتا ہے، مسجدوں میں نعرہ تکبیر لگا کر پھٹنا پڑتا ہے، پاکستان کو کافرستان کہنا پرتا ہے، اپنے بزرگوں کی قبروں پر تھوکنا پڑتا ہے، دوسروں کے بزرگوں کی قبروں کو مسمار کرنا پڑتا ہے، صحابہ کرام کے مزارات کو گرانا پڑتا ہے، اولیائے کرام کے آستانوں کو شرک کے مراکز کہنا پڑتا ہے۔ شام اور عراق کی طرح دوسروں کے ملکوں اور گھروں میں جا کر قبضہ کرکے مال و متاع لوٹنا پڑتا ہے۔
حضرت غوث الاعظم کی گیارھویں کے بجائے حضرت ٹرمپ کو لاکھوں کے تحفے اور ہدیئے دینے پڑتے ہیں، صحابہ کرام کے مزارات کو چومنے کے بجائے نریندر مودی کے رخسار چومنے پڑتے ہیں، اولیائے کرام کے مزارات پر دھمال ڈالنے کے بجائے ٹرمپ کے بازوں میں بازو ڈال کر بھنگڑا ڈالنا پڑتا ہے، تل ابیب کو گرانے کے بجائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی بیٹی کی قبر کو گرانا پڑتا ہے اور نبی ؐ کے پاک صحابہ جیسے حضرت ایوب انصاری اور حضرت اویس قرنی و حضرت حجر ابن عدی کے مزارات کو منہدم کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو اسلحے اور بمبوں کے ساتھ دبا کر رکھنا پڑتا ہے۔ کسی کو بھی چیخنے یا چلانے کی اجازت نہیں دی جاتی، جو چیخے اور چلائے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے، یہ خاموش ہو کر نہیں رہتا۔
اگر صحابہ کرام کے مزارات منہدم ہوتے ہیں تو ہونے دو، اگر اولیائے کرام کی توہین ہوتی ہے تو ہونے دو، اگر پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں تو کاٹنے دو، اگر آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کرنے دو، اگر پاکستان کو کافرستان کہا جاتا ہے تو کہنے دو، اگر قائداعظم کو کافراعظم کہا جاتا ہے تو کہنے دو، چونکہ یہ سب اسلام ہے اور جو اس کے خلاف بولے گا، وہ فرقہ پرست اور کافر ہے۔ ہاں میرے دوستو! میں مسلمان نہیں ہوسکتا، یہ بہت سخت کام ہے، میں اپنے بزرگوں کی قبروں پر نہیں تھوک سکتا، اپنے وطن سے غداری نہیں کرسکتا، اپنی مسجدوں میں خودکش حملے نہیں کرسکتا، اپنے اولیائے کرام کے مزارات کو شرک کے اڈے نہیں کہہ سکتا، نہیں نہیں میں ایسا نہیں کرسکتا، میری معذرت قبول کیجئے اور مجھے کافر ہی رہنے دیجئے۔ مجھے اپنا وطن، اپنی فوج اور اپنے لوگ عزیز ہیں۔تحریر: سعید عبداللہ
جب میں چھوٹا تھا تو سب کا احترام کرتا تھا، محلے والے مجھے نیک خالد کہتے تھے، پانچ وقت کی نماز مسجد میں پڑھتا تھا، ہر جمعرات کو ضرور داتا دربار پر دعا کے لئے جاتا تھا، ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو گیارھویں شریف کی دیگ پکا کر عزیز و اقارب اور غرباء و فقراء میں تقسیم کیا کرتا تھا، اگر تصویر میں بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مزار نظر آجائے تو اس کی طرف پشت نہیں کرتا تھا، گاڑی میں بزرگوں کے لئے جگہ چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا، بزرگوں کے احترام سے میرا مقصد اپنے فرقے کی تبلیغ نہیں ہوتا تھا بلکہ میں خلوص دل سے بزرگوں کا احترام کرتا تھا۔ کسی کا کوئی فوت ہو جائے تو اس کی قبر پر قرآن شریف کی تلاوت کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔
لیکن جب میں بڑا ہوگیا تو مجھے پتہ چلا کہ ان چیزوں سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا، مسلمان بننے کے لئے تو پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنا پڑتا ہے، مسجدوں میں نعرہ تکبیر لگا کر پھٹنا پڑتا ہے، پاکستان کو کافرستان کہنا پرتا ہے، اپنے بزرگوں کی قبروں پر تھوکنا پڑتا ہے، دوسروں کے بزرگوں کی قبروں کو مسمار کرنا پڑتا ہے، صحابہ کرام کے مزارات کو گرانا پڑتا ہے، اولیائے کرام کے آستانوں کو شرک کے مراکز کہنا پڑتا ہے۔ شام اور عراق کی طرح دوسروں کے ملکوں اور گھروں میں جا کر قبضہ کرکے مال و متاع لوٹنا پڑتا ہے۔
حضرت غوث الاعظم کی گیارھویں کے بجائے حضرت ٹرمپ کو لاکھوں کے تحفے اور ہدیئے دینے پڑتے ہیں، صحابہ کرام کے مزارات کو چومنے کے بجائے نریندر مودی کے رخسار چومنے پڑتے ہیں، اولیائے کرام کے مزارات پر دھمال ڈالنے کے بجائے ٹرمپ کے بازوں میں بازو ڈال کر بھنگڑا ڈالنا پڑتا ہے، تل ابیب کو گرانے کے بجائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی بیٹی کی قبر کو گرانا پڑتا ہے اور نبی ؐ کے پاک صحابہ جیسے حضرت ایوب انصاری اور حضرت اویس قرنی و حضرت حجر ابن عدی کے مزارات کو منہدم کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو اسلحے اور بمبوں کے ساتھ دبا کر رکھنا پڑتا ہے۔ کسی کو بھی چیخنے یا چلانے کی اجازت نہیں دی جاتی، جو چیخے اور چلائے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے، یہ خاموش ہو کر نہیں رہتا۔
اگر صحابہ کرام کے مزارات منہدم ہوتے ہیں تو ہونے دو، اگر اولیائے کرام کی توہین ہوتی ہے تو ہونے دو، اگر پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں تو کاٹنے دو، اگر آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کرنے دو، اگر پاکستان کو کافرستان کہا جاتا ہے تو کہنے دو، اگر قائداعظم کو کافراعظم کہا جاتا ہے تو کہنے دو، چونکہ یہ سب اسلام ہے اور جو اس کے خلاف بولے گا، وہ فرقہ پرست اور کافر ہے۔ ہاں میرے دوستو! میں مسلمان نہیں ہوسکتا، یہ بہت سخت کام ہے، میں اپنے بزرگوں کی قبروں پر نہیں تھوک سکتا، اپنے وطن سے غداری نہیں کرسکتا، اپنی مسجدوں میں خودکش حملے نہیں کرسکتا، اپنے اولیائے کرام کے مزارات کو شرک کے اڈے نہیں کہہ سکتا، نہیں نہیں میں ایسا نہیں کرسکتا، میری معذرت قبول کیجئے اور مجھے کافر ہی رہنے دیجئے۔ مجھے اپنا وطن، اپنی فوج اور اپنے لوگ عزیز ہیں۔

Hazrat Umer Farooq R.A ka ek qissa (Beta baap se mushaba)

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رعایا کی خبرگیری کے لئے گشت کر رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ایک آدمی پر نظر پڑی جس نے اپنے کندھے پر اپنا بیٹا اٹھایا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر فرمایا کہ میں نے کوئی بچہ اپنے باپ کے اتنا مشابہ ہم شکل نہیں دیکھا جتنا یہ بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہے۔ اس آدمی نے کہا کہ اے امیرالمومنین! یہ وہ بچہ ہے جس کو اس کی ماں نے مردہ حالت میں جنم دیا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا! تیرا ناس ہو وہ کیسے؟ اسوہ کیسے؟ کیسے؟ اس آدمی نے کہا
جب میں اس کی ماں کو حالت حمل میں چھوڑ کر ایک جہادی مہم کے لئے روانہ ہونے لگا تو میں نے کہا  کہ تیرے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کو میں اللہ تعالیٰمیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ پھر جب میں سفر سے واپس آیا تو پتہ چلا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے۔ ایک رات میں جنت البقیع کے قبرستان میں اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے قبرستان میں چراغ کی طرح کی روشنی دیکھی، میں نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے پوچھا، یہ روشنی کیسی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ فلاں عورت اس آدمی کی بیوی کی قبر کے پاس ہر رات روشنی نظر آتی ہے۔ میں نے ایک کلہاڑی لی اور قبر کی جانب چلا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ قبر کھلی ہوئی ہے اور اس کے اندر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہے۔ میں ذرا قریب ہوا تو غیب سے آواز آئی، اے شخص! جس نے اپنے رب کے پاس اپنی امانت رکھوائی تھی، اپنی امانت لے لو۔ یاد رکھو! اگر اس کی ماں کو بھی ہمارے پاس امانت کے طور پر رکھواتا تو اس کو بھی پا لیتا، پھر میں نے بچہ کو پکڑا تو قبر بند ہو گئی۔حضرت عمرؓ فاروق کےدور مبارک کا ایک اور واقعہ بہت معروف ہے کہ ایک عورت آنسو بہاتے ہوئے امیر المومنین حضرت عمرؓ کے پاس آئی اس کا حال یہ تھا کہ کپڑے میلے کچیلے تھے، ننگے پاؤں تھی،پیشانی اور رخساروں سے خون بہہ رہا تھا اور اس عورت کے پیچھے ایک طویل القامت آدمی کھڑا تھا،
اس آدمی نے زور دار آواز میں کہا: اے زانیہ، حضرت عمرؓ نے فرمایا: مسئلہ کیا ہے؟ اس آدمی نے کاہ کہ اے امیر المومنین! اس عورت کو سنگسار کریں، میں نے اس سے شادی کی تھی اور اس نے چھ مہینہ میں ہی بچہ جنم دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس عورت کو سنگسار کرنے کاسنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت علیؓ نے جو حضرت عمرؓ کے برابر بیٹھے تھے، کہا: امیر المومنین!یہ عورت زنا سے بری ہے۔
 حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ کیسے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَ حَمْلُہ وَ فِصَالُہ ثَلٰثُوْنَ شَھْراً‘‘ (الاحقاف:15) اور دوسری جگہ فرمایا ہے: ’’وَ فِصَالُہ فِیْ عَامِیْنِ‘‘ (لقمان:14) تو جب ہم اس سے رضاعت کی مدت نکالیں گے جو کہ تیس مہینوں میں سے چوبیس مہینے ہیں تو چھ ماہ ہی باقی رہ جائیں گے، لہٰذا ایک عورت چھ ماہ میں بچہ جن سکتی ہے۔ (یہ سن کر) حضرت عمرؓ کا چہرہ دمک اٹھا اور فرمایا: اگر (آج) علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہو جاتا

ایک سوال اور !

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم ۔ شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہے

ایک سوال اور
پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں 
بہت سوچا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے خوب سوچ بچار اور ریسرچ کے بعد ایک بات سامنے آئ اور وہ یہ ہے کہ
حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت کی بات ہے یہودیوں نے جب دیکھا کہ مسلمان کسی بھی طریقے سے ہراے نہیں جا سکتے تو انہوں نے اپنے کچھ لوگوں کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل کر دیا جو بظاھر تو مسلمان بن گئے لیکن مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانا شروع کر دیا.
حضرت علی ؓ کے دور خلافت میں بھی ان لوگوں نے خوب کردار ادا کیا اور جب حضرت علی ؓ  نے سزا کے طور پر کچھ لوگوں کو آگ میں جلا دیا تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آگ کا عذاب تو صرف خدا ہے دے سکتا ہے 

ہمارے درمیان موجودہ دور میں کے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں مسلمانوں میں آج بھی وہ گروہ شامل ہیں جو ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں دین کے نام پر ہمکو بھڑکاتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں

میری الله پاک سے دعا ہے کہ الله پاک ہمکو ان کے شر سے محفوظ رکھے اور اچھا اور سچا مسلمان بنانے کی توفیق دے
آمین
سوال یہ ہے کہ ہم جنکو اپنا پیر یا لیڈر مانتے ہیں کیا وہ سچ میں مسلمان ہیں
تو سب ذرا سوچئے